اسرائیل کے انتہا پسند سیاسی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر یہ مطالبہ پوری شدت کے ساتھ اٹھایا جا رہا ہے کہ یہودیوں کے مذہبی ایام بالخصوص عیدوں اور تہواروں کے موقع پر یہودیوں کو مسجد اقصیٰ میں داخلے کی کھلی چھٹی دی جائے اور جب تک تہواروں کی تقریبات جاری رہیں مسلمانوں کے قبلہ اول میں داخلے پر مکمل پابندی عاید کی جائے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق یہ مطالبہ کرنے والوں میں اسرائیلی پارلیمنٹ کے اسپیکر موشے ویگلین بھی پیش پیش ہے۔ گذشتہ روز اس نے مقبوضہ بیت المقدس میں ایک نیوز کانفرنس میں یہودیوں کی عیدالعرش کے موقع پر کچھ دیر کے لیے یہودیوں کو مسجد اقصیٰ میں داخلے سے روکنے پر صہیونی پولیس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ پولیس نے مسجد اقصیٰ کا مراکشی دروازہ یہودی آباد کاروں کے داخلے لیے بند کردیا تھا۔ اگر یہ خبر درست ہے تو فوج اور پولیس کی کھلم کھلا زیادتی ہے۔ میں اس کی شدید مذمت کرتا ہوں۔
مسٹر ویگلین کا مزید کہنا تھا کہ جبل الھیکل "مسجد اقصیٰ" پر مسلسل چار روز اسلامی تحریک مزاحمت "حماس" اور "داعش" کے حامیوں کا قبضہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے حال ہی میں حماس اور حزب اللہ کے خلاف ہونے والی جنگوں میں فتح مندی دعویٰ کیا ہے۔ حماس نے ان کی فتح کا پول مسجد اقصٰی کو اپنی گرفت میں لے کر کھول دیا ہے۔ اس وقت قبۃ الصخرہ اور پورا بیت المقدس حماس کے حامیوں کی گرفت میں ہے۔
موشے ویگلن نے اپنی پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پولیس نے حماس کے سامنے شکست خودگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بیت المقدس کے وسط میں اتنی بڑی تعداد میں پولیس کی موجودگی کے باوجود یہودی آباد کاروں کو مسجد اقصیٰ میں داخلے سے روکنا اسرائیل کی شکست اور حماس کی فتح نہیں تو اور کیا ہے۔ عید کے ایام میں مسجد اقصیٰ میں داخل ہوکر وہاں تلمودی تعلیمات کے مطابق عبادت کی ادائی ہمارا حق ہے اور ان ایام میں مسلمانوں کے مسجد اقصیٰ میں داخلے پر مکمل پابندی عاید کی جانی چاہیے۔
ادھر رائے عامہ کے ایک جائزے کے نتائج پر مبنی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 84 فی صد یہودیوں نے عید کے ایام میں مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ میں داخلے سے منع کرنے کی حمایت کی ہے جبکہ صرف 15 فی صد نے فلسطینیوں اور مسلمانوں کے لیے قبلہ اول کو کھلا رکھنے کے حق میں رائے دی ہے۔